تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
حوزہ نیوز ایجنسی| ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اپنی دنیوی ترقی اور علمی و سائنسی پیش رفت میں کس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے؛ ہزاروں اور لاکھوں سالوں پر مشتمل انسانی تاریخ کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ زمین و آسمان کی عمریں معین کرنے کے ساتھ زمین و آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات کی مدتیں بتائی جا رہی ہیں۔ ہزاروں سال پہلے موجود انسانوں حتیٰ کہ حیوانوں کی ہڈیوں اور آثار کا مشاہدہ اور سائنسی تجزیہ کرکے پوری تہذیب کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے، لیکن دوسری طرف یہ المیہ موجود ہے کہ صرف چودہ یا پندرہ سو سال پہلے ہونے والے واضح و واشگاف اور مشہور واقعات کی تاریخ کے بارے میں مخمصے کا شکار ہے۔
امت محمدی کی بدقسمتیوں میں سے ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم جس نبی ؐ کے پیروکار اور امتی ہیں؛ اس نبی ؐ کے بارے میں اتنا حتمی علم نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں کس دن کس سال اور کس وقت تشریف لائے تھے؟ یعنی ان کا یوم ولادت اور یوم آمد کب ہے؟ اسی طرح ہمیں یہ بھی حتمی علم نہیں کہ ہمارے نبی ؐ کس دن‘ کس تاریخ کو کیسے اور کس وقت دنیا سے تشریف لے گئے یعنی ان کا یوم رحلت و یوم وصال کب ہے؟
یوم ولادت کے بارے میں یہی بہانہ بنایا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ابھی کیلنڈر نہیں بنے تھے اور ماہ و سال کا تعین نہیں کیا گیا جبکہ لوگوں میں اپنے بچوں کی پیدائش کا دن لکھنے یا یاداشت میں رکھنے کا شوق اور رواج نہیں تھا۔ اگرچہ اس بہانے میں صداقت نہیں لیکن پھر بھی اگر ایک لمحے کے لیے یہ بہانہ مان لیا جائے تو ٹھیک تریسٹھ سال بعد تو قرآن کریم بھی لکھا جا چکا تھا غزوات کی تاریخیں بھی رقم ہو چکی تھیں ہجرت اور فتح مکہ کی تاریخیں بھی ثبت ہو چکی تھیں۔غرض یہ کہ دور نبوی کے تمام تر واقعات قلمبند یا زبان بند ہو چکے تھے پھر ایسا کیا ہوا کہ رسول اکرم ؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کا دن یاد نہیں رہا؟ تجزیے کے لیے تو کئی ایک باتیں کی جا سکتی ہیں اور تاریخی شواہد سامنے رکھ کر ہزاروں باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یا امت محمدی کو اپنے رسول ؐ کے یوم وصال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یا بھی کچھ ایسے سربستہ راز ہیں جو یوم وصال کے تذکرے سے طشت از بام ہو جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی اپنی تاریخ میں اپنے ہی رسول ؐ کی رحلت کی وجوہات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جنگ خیبر کے وقت دئیے جانے والے زہر سے لے کر شدید تپ یعنی بخار کی بیماری تک کئی الگ الگ قصے ہیں جو بیان کئے جاتے ہیں قرآن کی تفسیر‘ دین کی تعبیر‘ احادیث کی تشریح اور نبوی دور کی تاریخ نبی ؐ کے اہل خانہ و قربیٰ سے لینے کی بجائے باہر رہنے والے اصحاب حضرات سے لینے کی اٹل عادت کے سبب بہت سارے معاملات میں خلاء یا اختلاف موجود ہے یہ خلاء ختم ہو سکتا تھا اور یہ اختلاف دور کیا جاسکتا تھا اگر رسول اکرم ؐ کے اہل خانہ یعنی اہل بیت ؑ کی باتوں پر اعتماد اور یقین کیا جاتا۔ ولادت کے معاملے میں اگر حضرت ابوطالب ؑ و سیدہ فاطمہ بنت اسد اور ان کے اہل خانہ سے رجوع کرکے بات مانی جاتی تو آج یوم ولادت ِ رسول ؐ پر اختلاف نہ ہوتا۔ اسی طرح رحلت‘ شہادت یا وفات کے معاملے میں مولائے کائنات حضرت علی ؑ و سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا ؑ اور ان کی اولاد کی بات مانی جاتی تو یوم وصال کے معاملے میں بھی اختلاف نہ ہوتا۔
مسلم مورخین کی مجبوری رہی ہے کہ انہیں جب سیرت رسول ؐ یا حیات و زندگانی رسول ؐ بیان کرنا ہوتی ہے تو انہیں ولادت سے آغاز کرکے پوری زندگی کے واقعات سے گذرتے ہوئے بالآخر رسول اکرم ؐ کے آخری ایام تک بہر حال پہنچنا ہوتا ہے اور دنیا سے رخصت ہونے کی وجوہات اور تذکرہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر مسلم مورخین کے اختیار میں ہوتا تو وہ رسول اکرم ؐ کے آخری ایام بالخصوص روز رخصت کا ذکر ہی نہ کرتے لیکن اس ذکر سے مفر ممکن نہیں ہے۔ واللہ اعلم کیا معاملہ اور کیا حقیقت ہے جس کے سبب مورخین نے وجوہات رحلت ِ رسول اکرم ؐ اور اسباب ِ علالت ِ رسول خدا ؐ پر تفصیلی بات کرنا تو دور کی بات ہے محض روز ِ رحلت ِ نبی رحمت ؐ بتانے میں بھی ایسی طریقہ اختیار کیا کہ آج پوری امت اپنے رسول ؐ کے یوم رحلت سے لاعلم ہے یا دانستہ خاموش ہے یا اختلاف کا شکار ہے۔
خود مسلم مورخین کی رقم کردہ تاریخ کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو تین نکات اخذ کئے جا سکتے ہیں جنہیں سامنے رکھ کر یا مدنظر رکھ کر رحلت رسول ؐ کے ابواب تفصیلاً رقم نہیں کئے گئے۔ ان تینوں نکات میں تین واقعات بھی پنہاں ہیں۔ پہلا واقعہ رسول اکرم ؐ کو جنگ خیبر کے موقع پر زہر دینے کے ساتھ مربوط ہے جس کا اثر آپ ؐ کے جسم پر مسلسل موجود رہا۔ زہر دینے کے اس واقعے کے پیچھے جو سازش کارفرما تھی شاید ہمارے مورخین اس کی تفصیلات سے بچنا چاہتے تھے۔ دوسرا واقعہ مسلسل بخار کی بڑھتی ہوئی شدت اور رسول خدا ؐ کا باہر موجود اپنے اصحاب سے عدم ارتباط تھا اور صرف اہل خانہ تک محدودیت تھی۔ تیسرا واقعہ واقعہ قرطاس ہے جو زبان زد عام ہے۔ اس واقعہ پر تبصروں اور موقف دینے سے گریز کی پالیسی نے بھی شاید رحلت رسول ؐ کا تفصیلی تذکرہ رقم نہیں کرنے دیا۔
ہماری مطالعاتی رائے کے مطابق شاید یہی وجہ ہے کہ یوم ولادت نہ منانے یا منانے کی مخالفت کرنے یا منانے کو بدعت قرار دینے کی اصل وجہ یہی لگتی کہ اگر امت کو ولادت کا دن منانے کی اجازت یا ترغیب مل گئی اور امت نے ولادت کے دن اپنے رسول ؐ کی خوشیوں کے تذکرے شروع کر دئیے تو یقینا جب رحلت کا دن آئے گا تویہ دن مناتے وقت امت اپنے رسول کی بیماری کے تذکرے کرے گی۔ پھر بیماری کی نوعیت اور کیفیت پر بات کرے گی۔ پھر علالت کے دوران پیش آنے والے واقعات بیان ہوں گے۔ پھر بیماری اور علالت کے دوران پیارے رسول ؐ کا خیال رکھنے اور بے اعتنائی و بے پرواہی کرنے کے بارے میں بات ہوگی۔ اس لئے مورخین نے رحلت رسول اکرم ؐ کا ایک مقرر دن بیان نہیں کیا تاکہ آنے والی نسلیں اگر گذری تاریخ کے بارے میں سوال کرے تو اسے کوئی حتمی بات نہ ملے کوئی واضح تاریخی حوالے نہ ملیں۔ کوئی مستند رائے نہ ملے۔ کوئی غیر متنازعہ اور متفقہ بات نہ ملے۔ اس طرح قیامت تک امت ٹامک توئیاں مارتے مارتے روز ِ آخرت اپنے رسول اکرم ؐ کے روبرو پہنچ جائے جہاں سب پردے اٹھائے جائیں گے سب راز آشکار ہوں گے سب نقاب الٹے جائیں گے سارے حقائق منظر عام پر لائے جائیں گے اور ساری مستند تاریخ سامنے رکھی جائے گی۔









آپ کا تبصرہ